خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ کے ، آج اپنا حساب لگانے کے لئے تو
خود ہی کافی ہے۔
سوره الا سراء ١٤
ایک احتساب کا انتساب میرے نام:
جب میں سینہ ٹھونک کے یہ اعلان کرتی ہوں کہ بھائی میں دوغلی
نہیں ہوں ، ہر مکتب فکر کے لوگوں میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہوں تو اس سے بڑھ کر
دوغلا پن کیا ہو گا . میں بقائے انسانیت کی خاطر نہیں اپنی واہ واہ کی خاطر سب کے
ساتھ گھل مل کر رہتی ہوں . مگر کسی بھی مکتب فکر کے ساتھ مخلص نہیں ہوں . میں یہ
ہوں . میں یہ نہیں ہوں . ہر اچھائی میری ہے اور ہر برائی سے میں دور ہوں .
میں حقوق انسانی کی علمبردار ہوں . جب کہ حق تو میں نے اپنا بھی ادا نہیں کیا . مخلص تو میں خود کے ساتھ بھی نہیں ہوں . جو میں ہوں وہ میں نظر نہیں آنا چاہتی اور جو میں نظر آتی ہوں وہ ایک گرگٹ ہے . جس رنگ کی زمین اسی رنگ کی میں منافق ،بزدل ،مفادپرست ، خود غرض ، ریاکار ، جفاکار سود و زیاں کے چکر میں پھنسی ، ایک نقلی چہرہ سجاۓ اپنی بد صورتی پر . اور لوگوں سے اپنے لئے آراء طلب . ستائش طلب . اس طلب میں کبھی پیار ملتا ہے کبھی نفرت . مگر یہ سب مجھے نہیں ملتا . یہ میری منافقت کو ملتا ہے . کیونکہ لوگ ہمارے دکھاوے سے ہمیں پہچانتے ہیں . لوگ ؟ کون ہیں یہ لوگ ؟ بلکل میرا ہی عکس . اپنی اپنی بدصورتی چھپانے میں مگن . اپنی بدصورتی بھی کہیں کھو چکے لوگ ..... اپنی اصلیت میں انسان مگر دکھاوے میں فرشتے . فرشتے کون ہیں ؟ یہ وہ مخلوق ہیں جنھوں نے صرف حضرت انسان کو سجدہ کیا تھا . پھر کیوں ہم اپنے انسان ہونے پر شرمندہ ہیں . اس قدر شرمندہ کہ اپنی غلطی مان کر ہی نہیں دیتے . حالانکہ اگر غلطی مان لی جاتے تو احتساب کا سلسلہ روک بھی سکتا ہے . غلطی کی تصح بھی ہو سکتی ہے . مگر ہم تو بس اپنے آپ کو فرشتہ ، غلطی سے پاک اور ہر دلعزیز ہونے کے چکر میں اپنی ہستی ہی کھو چکے ہیں . انسانیت اختلاف راۓ نہ ہونے کا نام نہیں بلکہ اختلاف راۓ پر اتفاق کا نام ہے . ہم خود کو جو بھی ظاہر کر لیں ہمارا اندر ہمیں جانتا ہے . اس کو کیسے اندھا بہرا کریں گے . یہ دوغلا پن آہستہ آہستہ ہمارا اصل بن جاتا ہے . ہم انسان ڈی فارم ہو جاتے ہیں . ہمارے رویے اسی دوغلے پن نے منفی بنا دیے ہیں . تمام تباہ کاریوں کا با عث یہ دوغلا پن ہے . جو ہم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے . کسی ایک پوانٹ پر کھڑا ہونا بہت خطرناک ہے ، بھائی
میں حقوق انسانی کی علمبردار ہوں . جب کہ حق تو میں نے اپنا بھی ادا نہیں کیا . مخلص تو میں خود کے ساتھ بھی نہیں ہوں . جو میں ہوں وہ میں نظر نہیں آنا چاہتی اور جو میں نظر آتی ہوں وہ ایک گرگٹ ہے . جس رنگ کی زمین اسی رنگ کی میں منافق ،بزدل ،مفادپرست ، خود غرض ، ریاکار ، جفاکار سود و زیاں کے چکر میں پھنسی ، ایک نقلی چہرہ سجاۓ اپنی بد صورتی پر . اور لوگوں سے اپنے لئے آراء طلب . ستائش طلب . اس طلب میں کبھی پیار ملتا ہے کبھی نفرت . مگر یہ سب مجھے نہیں ملتا . یہ میری منافقت کو ملتا ہے . کیونکہ لوگ ہمارے دکھاوے سے ہمیں پہچانتے ہیں . لوگ ؟ کون ہیں یہ لوگ ؟ بلکل میرا ہی عکس . اپنی اپنی بدصورتی چھپانے میں مگن . اپنی بدصورتی بھی کہیں کھو چکے لوگ ..... اپنی اصلیت میں انسان مگر دکھاوے میں فرشتے . فرشتے کون ہیں ؟ یہ وہ مخلوق ہیں جنھوں نے صرف حضرت انسان کو سجدہ کیا تھا . پھر کیوں ہم اپنے انسان ہونے پر شرمندہ ہیں . اس قدر شرمندہ کہ اپنی غلطی مان کر ہی نہیں دیتے . حالانکہ اگر غلطی مان لی جاتے تو احتساب کا سلسلہ روک بھی سکتا ہے . غلطی کی تصح بھی ہو سکتی ہے . مگر ہم تو بس اپنے آپ کو فرشتہ ، غلطی سے پاک اور ہر دلعزیز ہونے کے چکر میں اپنی ہستی ہی کھو چکے ہیں . انسانیت اختلاف راۓ نہ ہونے کا نام نہیں بلکہ اختلاف راۓ پر اتفاق کا نام ہے . ہم خود کو جو بھی ظاہر کر لیں ہمارا اندر ہمیں جانتا ہے . اس کو کیسے اندھا بہرا کریں گے . یہ دوغلا پن آہستہ آہستہ ہمارا اصل بن جاتا ہے . ہم انسان ڈی فارم ہو جاتے ہیں . ہمارے رویے اسی دوغلے پن نے منفی بنا دیے ہیں . تمام تباہ کاریوں کا با عث یہ دوغلا پن ہے . جو ہم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے . کسی ایک پوانٹ پر کھڑا ہونا بہت خطرناک ہے ، بھائی
. اپنی ساکھ کے لئے . مگر کیا ہو گا جب میرا راز فاش ہو
گا کہ میں کون ہوں . مگر نہیں میرا یہ راز راز ہی رہے گا . جب تک میں خود اپنے
ہاتھوں میں اپنے کیے کی کتاب نہیں پڑھوں گی . تب میں اپنا اصل روپ دیکھ کر خود ہی
چلا اٹھوں گی کون ہے یہبد شکل عورت اسے تو میں جانتی ہی نہیں ہوں . پھر ایک ایک کر
کے سب یاد آے گا کہ کب کیا ریا کاری کی تھی . اور گھبرا کے پوچھوں گی کہ کیا یہ
میں ہوں تب غیب سے ندا آے گی کہ ہاں یہ تم ہو . اور میرا راز فاش ہو جاۓ گا
. یہ ندا اب بھی آ رہی ہے مگر ذرا مختلف انداز میں . ندا آ رہی ہے کہ خود پسندی کے
خول سے نکل کر انسان بن جاؤ کہ تم پر اپنی دوسرے انسان کا احترام واجب ہے . مگر
میں تو اپنی ہی سوچ کا احترام کرنے سے قاصر ہوں کہ خود کے ساتھ مخلص ہو جاؤں اور
کسی ایک نکتہ پر ٹھر جاؤں . کسی اور کے ساتھ کیا اخلاص برتوں گی .
وہ دن دور نہیں جب دوسرے نہیں میں خود ہی اپنا نامہ اعمال
لئے خود کو جج کر رہی ہوں . میرا رب مجھے میرا جج مقرر کر چکا ہے . ہمیں اب خود
اپنے خلاف گواہی دینا باقی ہے۔ .
0 comments:
Post a Comment